Willkommen - خوش آمدید - Welcome

اللہ کرے ہم انسانیت کی بھلائی کے لئے اردو زبان اور ادب کا اور  بہتر استعمال کریں

http://www.beepworld.de/user/79/43/42/15/3/img3272.jpg?nocache=0.01991758852327674

 

اردو انجمن برلن ایک غیر م‍ذہبی، غیر سیاسی اور غیر تجارتی تنطیم ہے

  اورہرشخص کا خیر مقدم کرتی ہے جسے اردو زبان و ادب سے دلچسپی ہے۔

Urdu Anjuman Berlin is a non religious, non political and non commercial organization

everyone who is interested in Urdu language and literature is most welcome

_________________________________________________________________________

 

Präsident: Arif Naqvi      Vizepräsident: Anwar Zaheer      Sekretär: Uwe Feilbach

 

صدر: عارف نقوی      نائب صدر: انور ظہیر  سکریٹری: اووے فائیلباخ

 

____________________

 

یومِ رضیہ سجاد ظہیر اور احمد ندیم قاسمی

برلن یکم جولائی 2018

 

یکم جولائی 2018کو برلن  ۔شوئنے برگ کی ّپالاسٹٗ نامی عمارت کے بڑے ہال میں اردو انجمن برلن نے مشہور اردو ادیبوں رضیہ سجاد ظہیر اور احمد ندیم قاسمی کے 100 ویں یوم پیدائش کا جشن منایا۔

مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے میرٹھ  کی سی سی ایچ یونیورسٹی کے شعبہ ء اردو کے صدر پروفیسر اسلم جمشید پوری اور محترمہ نور ظہیر نے شرکت کی۔

سب سے پہلے  معروف ظنز و مزاح نگار  مشتاق احمد یوسفی کو خراج عقیدت پیش کی گئی۔ اس کے بعد رضیہ سجاد ظہیر اور احمد ندیم قاسمی پر دستاویزی فلم دکھائی گئی۔  جلسے کی صدارت اردو انجمن کے صدر عارف نقوی نے کی اور انجمن کے نائب صدر انور ظہیر رہبر اور مایا ظہیر نےنظامت کے فرائض انجام دئے۔ موسیقار دھیرج رائے نے سنگیت کے ساتھ خراج عقیدت پیش کیا۔ محترمہ نور ظہیر نے ،جو ترقی پسند تحریک کے بانی سید سجاد ظہیر اور رضیہ سجاد ظہیر کی سب سے چھوٹی بیٹی ہیں، اپنی والدہ کی زندگی اور خدمات کے بارے میں بتایا۔ پروفیسر اسلم جمشید پوری نے رضیہ سجاد ظہیر اور احمد ندیم قاسمی کی تخلیقات ، خدمات اور ان کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔

جلسے میں اسلم جمشید پوری کی کتاب عید گاہ سے واپسی کے تیسرے ایڈیشن، عارف نقوی کی کتاب طائر ۤوارہ اور عشرت معین سیما کی کتاب جرمنی میں اردو اور ہما فلک کے پہلے افسانوی مجموعے کی رسمِ اجراء بھی کی گئی۔ پروفیسر اسلم جمشید پوری کو  اردو کا ستارہ ایوارڈ اور محترمہ نور ظہیر کو  میمنٹو پیش کیا گیا۔ ساتھ ہی بزم ادب کے صدر علی حیدر وفا کو اردو انجمن کی طرف سے ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر اعزاز پیش کیا گیا۔  محترم خالد محمود، انور خان، ڈاکٹر عاصم قادری اور محترم عمر ملک کو اعزاز پیش کئے گئے۔ آخر میں ایک شاندار مشاعرہ کے ساتھ تقریب کا اختتام ہوا۔

 

200 year Birth Anniversary of Sir Syed Ahmad Kahn

Celebrated in Berlin

Urdu Anjuman Berlin celebrated 200 year Birth Anniversary of the great reformer, philosopher, educationist and founder of Aligarh Muslim University Sir Syed Ahmad Khan on September 17, 2017

in 'Palast' Schoeneberg Berlin.

Guests of honour were Dr. Ishrat Nahid, Lucknow Campus of Maulana Azad University, Mr. Khalid Hameed Farooqui from Brussels and Mr. Waheed Qamar from Frankfurt.

The function was presided over by Mr. Arif Naqvi, President Urdu Anjuman Berlin. Moderation was done by Mr. Anwar Zaheer Rahber, Vice President Urdu Anjuman Berlin and Miss. Jaria.

A documentary film on life and services of Sir Syed Ahmad Khan was shown by Anwar Zaheer and musical homage paid by singer Dheeraj Roy. After presidential address of Arif Naqvi Dr. Ishrat Nahid, Mr. Khalid Hameed Farooqui and Mr. Waheed Qamar and others spoke on varius aspects of the contributions of Sir Syed.

Arif Naqvi's book 'Rahe ulfat men gamzan', Dr. Ishrat Nahid's book 'Hayat Ullah Ansari', Dr. Reshma Parveen's book on Razia Sajjad Zaheer and Ishrat Moin Seema's poetry collection 'Jangal men qandeel' were released ceremonially.

The function ended with a very impressive 'Mushaira' (poetry recitation by poets)

______

اردو انجمن برلن کی تقریب ۔جشنِ سر سید

اتوار 17 ستمبر 1917 کو اردو انجمن برلن نے سرسید احمد خان کے 200 ویں یومِ پیدائش کی خوشی میں محل نامی ایک عمارت میں زوردار تقریب کا انعقاد کیا۔ اس تقریب میں کراچی سے پروفیسر سحر انصاری، الہ آباد سے پروفیسر علی احمد فاطمی ، دہلی سے ڈاکٹر خالد علوی، علیگڑھ سے پروفیسر صغیر افراہیم، میرٹھ سے پروفیسر اسلم جمشید پوری اور لکھنئو سے محترمہ ڈاکٹر عشرت ناہید مدعو کی گئی تھیں۔بعض مجبوریوں کی وجہ سے پروفیسر سحر انصاری، علی احمد فاطمی، خالد علوی نہ ۤآ سکے جبکہ صغیر افرایم صاحب کی اہلیہ عین وقت پر سخت بیمار پڑ گئیں اور میرٹھ کی سی سی ایچ یونیورسٹی کے شعبہ ء اردو کے صدر پروفیسر اسلم جمشید پوری کو وقت پر ویزا نہ مل سکا۔

لیکن ہمیں اس وقت بہت خوشی ہوئی جب مولانا آزاد یونیورسٹی کے لکھنئو کیمپس کی استانی ڈاکٹر عشرت ناہید لکھنئوی انداز میں جلوہ افروز ہوئیں اور ہم نے ان کا زوردار استقبال کیا۔بروسیلس سے جیو ٹی وی کے بیورو انچارج محترم خالد حمید فاروقی اور آن لائن افسانہ فورم کے ایڈمن محترم وحید قمر صاحب بھی پہنچ گئے۔ 17 ستمبر کو ایک زوردار جلسہ اردو انجمن کے صدر عارف ، ہمبولٹ یونیورسٹی برلن کے سابق استاد عارف نقوی کی صدارت میں شروع ہوا ، جس کی نظامت انجمن کے نائب صدر انور ظہیر رہبر اور محترمہ جاریہ نے کی۔ عارف نقوی کے صدارتی الفاظ اور انور ظہیر کے استقبالیہ الفاط اور بنگالی موسیقار دھیرج رائے کے جادو بھرے اردو گیتوں  کے بعد محترمہ ڈاکٹر عشرت ناہید، محترم خالد حمید اور محترم وحید قمر نے خیالات کا اظہار کیا۔

دوسرے دوور میں عارف نقوی کی کتاب راہِ الفت میں گامزن  کی ڈاکٹر عشرت ناہید کے ہاتھوں رسم اجراء انجام پائی ۔ جبکہ محترمہ عشرت معین سیما نے عارف نقوی کی کتاب پر مقالہ پڑھا۔ اس کے بعد تالیوں کی گونج میں ڈاکٹر عشرت ناہید کی کتاب ّحیات اللہ انصاری شخصیت اور ادبی کارنامےٗ کی رسم اجراء عارف نقوی کے ہاتھوں کی گئی۔تیسری کتاب محترمہ عشرت معین سیما کا شعری مجموعہ ّجنگل میں قندیلٗ تھی ، جس کی رسمِ اجراء محترم خالد حمید فاروقی کے ہاتھوں کی گئی۔ چائے کے وقفے کے بعد ایک زوردار مشاعرہ منعقد ہوا۔

داسرے دن ایک ریستوراں میں اردو انجمن برلن نے شام افسانہ منعقد کی۔، ، 

 

 

 

 

عصمت چغتائی اور راجندر سنگھ بیدی

جشنِ صد سالہ سالگرہ

برلِن 31 مئی 2015

مہمانِ خصوصی: ڈاکٹر سید عمار رضوی لکھنئو،ہندوستان

مہمان: محترمہ فرزانہ فرحت، محترمہ فرخندہ رضوی برطانیہ، پاکستان

پروگرام

مقالے: عصمت چغتائی اور راجندر سنگھ بیدی کے افسانوں میں انسان دوستی اور ترقی پسندی

ساز سنگیت، غزلیں ، گیت، دستاویزی فلم، کتابوں کی رسمِ اجراء

مشاعرہ زیرِ صدارت: ڈاکٹر عمار رضوی

مقرر: ڈاکٹر عمار رضوی، عشرت معین سیما، ارشاد پنجتن،عارف نقوی، انور ظہیر رہبر، اُووے فائلباخ

فنکار: میاں اکمل لطیف، آصف خان، دھیرج رائے

شعراء

ارشاد خان، عشرت معین سیما، سوشیلا شرما،انور ظہیررہبرؔ، فرزانہ فرحت، فرخندہ رضوی،عارف نقوی وغیرہ۔

نظامت:

محترمہ نایاب خواجہ اور محترمہ جاریہ

 

 

 

 

 

 

 

 

Album anzeigen

 

   
     
     
  Album anzeigen Album anzeigen

Album anzeigen

Album anzeigen Album anzeigen Album anzeigen Album anzeigen Album anzeigen
Album anzeigen Album anzeigen Album anzeigen Album anzeigen Album anzeigen
Album anzeigen Album anzeigen Album anzeigen Album anzeigen Album anzeigen
Album anzeigen Album anzeigen Album anzeigen Album anzeigen Album anzeigen
Album anzeigen Album anzeigen Album anzeigen Album anzeigen Album anzeigen
Album anzeigen Album anzeigen Album anzeigen Album anzeigen Album anzeigen
Album anzeigen Album anzeigen Album anzeigen Album anzeigen Album anzeigen

 

 

 

 


Urdu Förderverein Berlin e.V.
(URDU ANJUMAN BERLIN)

Ali Sardar Jafri Centenary Celebration
Sunday 2nd. June 2013
علی سردار جعفری کی صد سالہ سالگرہ  

مری رگوں میں  چہکتے ہوۓ  لہو کو سنو
ہزاروں لاکھوں ستاروں نے ساز چھیڑا ہے
ہر ایک   بوند  میں  آفاق     گنگناۓ   ہیں
جعفری)     )                                                         

۔

URDU ANJUMAN BERLIN

(Urdu Förderverein Berlin e.V.)

جرمنی کی راجدھانی برلن میں سردار جعفری  کی صد سالہ سالگرہ کا جشن

رپورٹ

                   

          برلن 2 جون 2013

 

اردو انجمن برلن کے زیر اہتمام مشہور ترقی پسند شاعر علی سردار جعفری کی صد سالہ سالگرہ منامنے کےلۓ ایک زوردار تقریب 2 جون 2013 کو برلن کے مرکز میں ایک کشادہ ہال میں کی گئ۔ جلسے میں سیمینار، موسیقی،فلم اور مشاعرہ کے پروگراموں سے سردار جعفری کی شاعری میں انسانیت دوستی، ترقی پسندی۔امن اور محبت کے پیغام کو سراہتے ہوۓ انھیں خراج عقیدت پیش کیا گیا۔

پروگرام کا آغاز ستار اور طبلہ کی جھنکار اور تھاپ سے کیا گیا۔ اس کے بعد اردو انجمن کے صدر

عارف نقوی نے  مہمانوں کا استقبال کرتے ہوۓ خاص طور سے دلی یونیورسٹی کے اردو استاد

ڈاکٹر خالد علوی کا سواگت کیا جنھیں انڈین کاؤنسل آف کلچرل ریلیشنس نے اس اہم تقریب میں شرکت کے لۓ جرمنی بھیجا تھا۔ عارف نقوی نے اردو انجمن کی طرف سے آئ سی سی آر کا شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ اردو انجمن کے پروگرام مذہب و ملت، قومیت اور رںگ و نسل سے بالا تر ہوتے ہیں۔

اس کے بعد سردار جعفری کی زندگی اور شاعری پر انور ظہیر کی بنائی ہوئی ایک فلم کی جھلکیاں دکھا ئی گئیں۔

ڈاکٹر خالد علوی نے اپنے طویل کلیدی مقالے سے قبل جعفری کی زندگی سے وابستہ چند  اہم واقعات سناۓ۔انھوں نے اپنے مقالے میں جعفری کی شاعرانہ خوبیوئ کا ذکر کرتے ہوۓ بتایا کہ

جعفری ایک ایسے ترقی پسند شاعرتھے جنھوں نے کلام کے شعری محاسن کو مجروح نہیں ہونے دیا۔ انھوں نے نظموں کے ذریعے غالب، میر، کبیر  اور اقبال کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف کیا۔

 

سیمینار کے دوران اردو انجمن کے صدر عارف نقوی نے جعفری کی شخصیت اور فکر و فن پر

تفصیل سے روشنی ڈالی۔

سیمینار کے بعد  عارف نقوی کے تازہ مجموعہ کلام  کھلتی کلیاں کی خالد علوی کے ہاتھوں رسم اجراء کی گئی۔

محترمہ قدسیہ خواجہ نے اس پر ایک طویل مضمون پڑھا جس کا جرمن  زبان میں ترجمہ سارہ ظہیر نے پڑھ کر سنایا۔

اس کے بعد رسالہ پرواز کے عشرت معین سیما نمبر کا تعارف کرایا گیا۔ اور اووے بائلباخ، دھیرج راۓ، عشرت معین سیما اور نایاب خواجہ کو اردو کی خدمت کے  لئے سرٹیفیکیٹ دئے گئے۔

 

گلوکار دھرج رائے نے گیتوں سے  سردارجعفری کو خراج عقیدت پیش کیا۔

پروگرام کے آخری دور میں اسحاق ساجد کی صدارت میں جو ساڑھے آٹھ سو کلو میٹر کار چلا کر شرکت کے لئے برلن آئے تھے ایک زوردار مشاعرہ کیا گیا جس میئ ڈاکٹر خالد علوی، عارف نقوی،

اسحاق ساجد، حنیف تمنا، انور ظہیر رہبر، عشرت معین سیما، فاکر رضوی، شاہد علی شاہ جی،سوشیلا حق شرما، میاں مزمل، محمد ارشاد  اور امینا حیدر اور دیگر شعراء نے اپنے کلام سنائے۔

 

    

 Ali Sardar Jafri Centenary Celebration in Berlin

 

On Sunday 2nd June 2013 the Urdu Anjuman Berlin celebrated in Berlin the 100th Birth Anniversary of the great progressive Urdu poet Ali Sardar jafri. The celebration included a Seminar on ' Message of humanity, peace, Progress and love ' in the poetry of Sardar jafri, a short film on life and works of Jafri, music performance, Mushaira (poetry recitation) and release of  Arif Naqvi's latest poetry collection "Khilti Kaliyan" 

Prof. Dr. Khalid Alvi of Delhi University was invited as a special guest in the function, who represented the

Indian Council of Cultural Relations of India.

The function started with Sitar and Tabla performance.

After that Arif Naqvi, president of the Urdu Anjuman Berlin welcomed the guests. He especially thanked the Indian Council for Cultural Relations ICCR for its cooperation and enabling Dr. Khalid to grace the function. Naqvi gave a discription of his personal contacts with Sardar jafri and praised his poetry and personality.

After that a film on life and contributions of Sardar Jafri by Anwar Zahir was shown.

As a main speaker of the function Dr. Khalid spoke in details about different aspects of Jafri's poet and said that Jafri also had great regard for the classical Urdu poets.

He quoted many Urdu critics to establish his statement and described Jafri a great poet of our times. Dr. Khalid's lecture was translated into German language by Mr. Uwe Feilbach.

 

Arif Naqvi's latest poetry collection "Khilti Kaliyan" was released in the function by Dr. Khalid Alvi.Speaking on the occasion Mrs. Qudsia Zaidi praised Arif's poetry and refered with great regards to his short stories and plays also. The paper was translated into German language by Sarah Zaheer.

 

Also the Seema Zaheer special number of the magazine  Parwaz was introduced in the function by Urdu Anjuman President Arif Naqvi.

Seema Zaheer, Nayab Khwaja, Dheeraj Rai and Uwe Feilbach were honoured for their services for Urdu.

The first Session was concluded with the Urdu songs by Dheeraj Rai, who also recited a poem of Sardar Jafri in Urdu, German and Bengali languages.

 

Inthe second session of the function a Mushaira (poetry recitation) was held. Following poets recited their

poems Dr. Khalid Alvi from Delhi, Arif Naqvi (President Urdu Anjuman Berlin), Anwar zaheer Rahber (Vice President Urdu Anjuman Berlin), Hanif Tamanna, Ishaq Sajid, Fakar Rizvi, Shahid Ali Shahji,Sushila Haque/Sharma, Mian Muzammil, Mohm. Irshad,Emina Haider and others.

 

عارف نقوی کا شعری مجموعہ

کھلتی کلیاں

                        ایک جائزہ   

                                          قدسیہ خواجہ     ( ٹیلٹو جرمنی)

 

( 2 جون 2013 کو برلن میں کھلتی کلیاں کی رسم اجراء کے موقعے پر پڑھا گیا مضمون)

 

محترم عارف نقوی کا نیا شعری مجموعہ " کھلتی کلیاں" جسے وہ " شعری سندیسے" کہتے ہیں، اس وقت میرے پاس ہے اور مجھے اس کتاب پر کچھ کہنے کا مشکل ترین کام سونپا گیا ہے، گویا چراغ کو روشنی دکھانے کا عمل میرے ذمے لگایا گیا ہے۔ میں اسے اپنی خوش قسمتی  سمجھتی ہوں کہ یہ کام میرے حصے میں آیا ہے۔ لیکن یہ ایک کٹھن مرحلہ ہے کیونکہ عارف نقوی صرف عارف نقوی ہوتے تو شاید کچھ کہنے میں آسانی ہوجاتی لیکن انکی شخصیت اپنی ذات میں خود ہی ایک انجمن ہے اور ہر پہلو میں کچھ کہنے کے لئے مجھے ایک طویل دورانیے کی ضرورت ہوگی۔

عارف نقوی کو اردو ادب کا شاید ہی کوئ شیدائ ہو جو نہ جانتا ہو۔ ڈاکڑ ودیا ساگر آ نندعارف نقوی کے بارے میں لکھتے ہیں:

"سب سے پہلے تو یہ طے کرنا ہوگا کہ عارف نقوی ہیں کیا۔ کبھی تو وہ ایک افسانہ نگار کے روپ میں سامنے آتے ہیں اور ایسی نادر کہانیاں پیش کرتے ہیں کہ انسان چونک پڑتا ہےاور عش عش کرنے لگتا ہے۔ کبھی اپنے اہم تاریخی مضامین سے ہمیں چونکاتے ہیں۔ کبھی ان کی نظمیں اور غزلیں ہمارے دلوں میں اتر کر ہمیں تڑپاتی ہیں اور کبھی وہ ایک بہترین ڈرامہ نگار اور اداکار کی حیثیت سے سب کو حیرت میں ڈال دیتے ہیں اور داد حاصل کرتے ہیں۔  یوں سمجھئے کہ ان کی ذات میں لاتعداد شخصیتں موجود ہیں اور ہمارے لیے یہ مشکل ہوجاتا ہے کہ انھیں کسی ایک دائرہ میں محدود کرکے اپنی رائے دیں ۔"

برلن، جرمنی، یورپ، مشرق وسطی، پاکستان اور بھارت میں عارف نقوی کا نام اردو ادب کے  بے شمار استادوں اور طالب علموں کے دلوں پر راج کررہا ہے۔ لیکن ہم برلن والوں کی یہ خوش قسمتی ہے کہ عارف نقوی اردو ادب کی ایک ممتازاور بزرگ شخصیت ہم لوگوں کے درمیان ہے اور وہ نہ صرف اردو ادب کے لئے بلکہ ہم سب کے لئے ایک قیمتی سرمایہ ہیں۔ میری بھی بڑی خوش نصیبی ہے کہ میں نہ صرف انکی کتابوں کو پڑھ چکی ہوں، پڑھ رہی ہوں بلکہ اردو انجمن اور برلن کے دوسرے پروگراموں میں ان کو براہ راست سنتی بھی رہی ہوں، اسی لئے یہ کہہ سکتی ہوں کہ اردو شاعری میں جو دسترس اور مقام آپ کو حاصل ہے وہ کسی کسی کو نصیب ہوتا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے انکی غزل کے یہ دو اشعار

بشر کو چین نہیں شام اور سحر کے لیے

یہ  جدوجہد ہے اک عمر مختصرکے لیے

نتیجہ کیا ہو خدا    جانے کاوش   دل  کا 

دعائیں عرش پہ جانے لگیں اثرکے لیے

 

 

 

خوبصورت لب ولہجے میں جب وہ اپنی شاعری کو لوگوں میں پیش کرتے ہیں تو ان کی بات دلوں کی گہرائیوں تک اثر کرتی چلی جاتی ہے۔ نظمیں ہوں یا غزلیں آپ سماجی انصاف، انسانیت، دوستی، امن وامان اور دنیا میں پیار و محبت کے ہی طلبگار نظر آتے ہیں۔ چاند رات کی چاندنی میں غربت کی انوکھی جھلک دیکھنے کی طاقت انہیں میں پائ جاتی ہے۔  نظم "رات" میں کس خوبصورتی سے برملا اظہار کرتے ہیں

رات میری بھی ہے

تیری بھی ہے

میخواروں کی

کہیں گھنگھرو کہیں بربط

کہیں پروانوں  کی

لیکن

پیٹ خالی ہو تو یہ رات ہے مانند قہر

 

دنیا میں پھیلی ہوئ بربریت اور وحشت ان کو ہر قدم پر جھنجھوڑتی نظر آتی ہے اسی لئے وہ اسکو موضوع بنا کر اپنی بات کہہ جاتے ہیں۔

 

چھڑ گئ جنگ تو آکاش کے تاروں کی قسم

میکدہ ساز نگاہوں  کے اشاروں کی قسم

رقص کرتی ہوئ پائل کی صداؤں کی قسم

مسکراتے ہوئے پھولوں کو نہ چومے گا کوئ

جگمگاتے ہوئے تاروں کو نہ دیکھے گا کوئ

 

اور پھر آگے چل کر لکھتے ہیں

 

کتنے سوئے  ہوئے لوگوں کو جگانا  ہوگا

یعنی       انسان کو     انسان     بنانا   ہوگا

 

وطن کی بے انتہا محبت عارف نقوی کے دل کو انکے شہر لکھنؤ کی ہر وقت سیر کراتی رہتی ہے۔ لیکن وہ وطن کی محبت میں بالکل خود غرض نہیں ہوجاتے اسی لئے کیا خوب لکھتے ہیں کہ

وطن کے واسطے دار و رسن  کو چوم  کر کہنا

جمال  رخ پہ تیرے خود  کو میں قربان کرتا ہوں

لیکن

وطن کے نام پر اوروں کی دنیا مت مٹا دینا

ستمگر بن کے تم لفظ وفا  کومت بھلا دینا

وطن کے نام پر داغ عداوت  مت  لگا دینا

 

وطن پر اتنی انوکھی  اور جدت پسندی یہ عارف نقوی کا ہی کمال ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ یہ نہ صرف ان کا کمال ہے بلکہ بے باکی ہے کہ اس خوبصورتی سے وطن کی محبت بھی جگا دی لیکن یہ بھی بتادیا کہ سنبھل کر ہر کسی کا کوئ نہ کوئ وطن ہے۔

 جیسا کہ میں  پہلے ہی بتا چکی ہوں عارف نقوی کی شاعری بے انتہا موضوعات سے مزین ہے۔ اور اس میں ان کی شخصیت کی بزلہ سنجی مزید نکھار پیدا کردیتی ہے۔  نظم داد سخن میں وہ کیا خوب لکھتے  ہیں

میں نے بھرتی کے کئ شعر سنائے ان کو

پھر بھی ہر شعر پہ وہ داد دئے جاتے ہیں

بزم افکارہے یہ کچھ بھی پڑھو کچھ بھی کہو

پھر بھی ہر شعر پہ وہ داد دیے جاتے ہیں

 

 غرض یہ کہ ان کی شاعری میں ہر رنگ موجود ہے۔ ان کا یہ مجموعہ " کھلتی کلیاں" ایک جاذب نظر سرورق کے ساتھ خوبصورت سندیسہ ہے جس کے پیش لفظ میں وہ خود لکھتے ہیں کہ " میں نے پھولوں کے حسن اور خوشبو سے جو کچھ پایا ہے اسے " کھلتی کلیاں" کے روپ میں آپ کے سامنے پیش کررہا ہوں اس امید میں کہ شاید آپ گلشن کی رعنائ کو گلچیں کے بے رحم ہاتھوں سے بچا سکیں گے ۔"

 میں سمجھتی ہوں کہ انھوں نے اپنے قارئین کو واضح پیغام دیا ہے جس میں ہر ایک بات پنہاں ہے۔ جو دل دماغ ذہن اور سوچنے والے کے دل کو متاثر کرتی ہے۔  ان کے اس مجموعہ کلام میں تقریبا 43 نظمیں ہیں اور کم وبیش اتنی ہی غزلیں بھی۔ اس مختصر سے وقت میں ان کی ان کاوشوں کے بارے میں، میں مکمل اور جامع معلومات پہنچانے سے قاصر ہوں  اور شاید ایسا ہی بہتر ہے کیونکہ جب آپ اسے پڑھیں گے تب آپ عارف نقوی کے قلم سے نکلے الفاظ کے جوار بھاٹا میں ایسے گم ہوں گے کہ آپ کو پتہ ہی نہیں چلے گا کہ وقت آپ سے انکی نگارشات کے علاوہ کسی اور بھی چیز کا طالب ہے۔

 ان کے اس دیوان میں جن جن نظموں نے مجھے بہت زیادہ متاثر کیا انکے نام میں ضرور لینا چاہوں گی۔ ان کی ںظم رات، تکرار، احساس، ایک لڑکی، وطن، مادر وطن، عید، غریب کی عید، شب تاریک، ایک بچی کا سوال اور فنکار جدید اپنی مثال آپ ہیں۔ اس میں عارف نقوی  کی قلم پرمکمل  گرفت کا بھرپور انداز دیکھا جاسکتا ہے۔

 عارف نقوی کی یہ بارہويں کتاب ہے ۔ ابتک  کی گیارہ کتابوں میں افسانے، ڈرامے، تاریخی جائزے اور انکی یادوں پر مشتمل کتابیں شامل ہیں۔ ان کا یہ دیوان بھی دوسری تمام تر کتابوں کی طرح ان کو اردو ادب کے افق پر ایک ممتاز درجہ دیتا ہے ۔ اتنی ساری کتابوں کے مالک ہونے کے باوجود جو چیز ان کو دوسروں سے منفرد بناتی ہے وہ ان کے مزاج کی عاجزی ہے۔ جو انکا قد اور بھی اونچا کردیتی ہے۔  میں اپنی طرف سے اور اردو انجمن کے دوسرے تمام ساتھیوں کی طرف سے انھیں اس خوبصورت کاوش پر ڈھیروں مبارک باد پیش کرتی ہوں اور خدا وند سے دعا گو ہوں کہ مولا ان کو صحت و تندرستی سے مالا مال کرے تاکہ وہ اردو ادب کی یوں ہی خدمت کرتے رہیں (آمین) ۔

اب میں انکی کتاب کو آپ سب کے سامنے پیش کروں گی  اسکے لئے میں جناب عارف نقوی صاحب سے ملتمس ہوں کہ وہ اسٹیج پر تشریف لائیں اور پھر ہم مل کر اس خوبصورت سے پیکٹ کو کھول کر آج کی رسم اجراء کی ادائیگی کریں ، بہت شکریہ ۔

 

Khilti Kaliyan

Gedichtband von Arif Naqvi

Eine Betrachtung von Qudsia Khwaja

Teltow, Deutschland

 

Deutsche Übersetzung

Von

Sarah Zaheer

 

Übersetzung:  Syeda Sarah Zaheer

 

Nun fasse ich für Sie das bereits auf Urdu Vorgetragene zusammen.

Um über den Gedichtsband von Arif Naqvi, den Präsidenten des Urdu Fördervereins, mit dem deutschen Titel "Blühende Knospen" zu sprechen, muss man weit ausholen. Auch Dr. Vidya Sagar Anand sagt, dass man vorerst definieren muss, wer Arif Naqvi überhaupt ist. Ist er ein Schriftsteller? Ein Historiker, ein Dichter, ein Schauspieler? Da er so vielseitig talentiert ist, ist es schwierig sich auf eine Seite zu konzentrieren.

Berlin, Deutschland, Europa, auch im Nahen Osten, Pakistan und Indien ist sein Name in der Urdu Literatur bekannt. Wir können uns sehr glücklich schätzen, dass eine so bedeutsame Person für die Urdu Literatur zwischen uns sitzt und ich fühle mich auch sehr geehrt, dass ich seine Bücher lesen durfte, lesen darf und ihn direkt hier und bei ähnlichen Veranstaltungen antreffen und seinen Darbietungen zusehen und zuhören kann. Aus diesen Gründen kann ich versichern, dass er eine hohe Wichtigkeit für die Urdu Literatur einnimmt.

 

Die Menschheit, so rastlos von früh bis spät

So viel passiert in einem so kurzen Leben

Was wird wohl das Ergebnis sein, des Herzens Verlangen?

Ich schicke mein Flehen nach oben

 

Ähnliche Verse von ihm handeln meist von sozialer Gerechtigkeit, Menschlichkeit, Frieden, Freiheit, Freundschaft und den Glauben an Liebe und Hoffnung.

Wenn andere bei Vollmond nur an dessen Schönheit denken, so vergisst er trotzdem nicht das Elend, was viele umgibt.

 

Diese Nacht gehört dir, sie gehört mir

Sie gehört denen, die in den Morgen tanzen,

man hört den Klang ihrer Fußketten, das Surren der Nachtfalter

Doch wenn der Bauch vor Leere schreit,

so bringt die Nacht nur Vergeltung

 

Auch Krieg, Ungerechtigkeiten und Leid beschäftigen ihn und kriegen Ausdruck in seinen Gedichten

 

Bei den Sternen des Himmels schwöre ich,

wenn der Krieg beginnt,
geht keiner abends aus und tanzt,

küsst keiner die lächelnden Blumen,

keiner betrachtet die leuchtenden Sterne.
So lasst uns die Schlafenden wecken,

um aus dem Menschen wieder ein Mensch zu machen.

 

Da er in Lucknow geboren und aufgewachsen ist, ist auch die Heimat ein zentraler Aspekt in seinen Überlegungen. Allerdings zeigt er eine neuartige Sicht, die besagt dass man um seine eigene Heimat zu schützen niemals eine andere Heimat zerstören soll.

Dies ist sein zwölftes Buch, seine vorherigen Bücher beinhalteten Gedichte, Balladen, Theaterstücke, Historische Erzählungen und Anekdoten aus seinem Leben.
Auch dieses Buch ähnelt den anderen und gibt der Urdu Poesie einen neuen Wert.

Trotz der Tatsache, dass er schon so viele Bücher veröffentlicht hat, so hat dies keine Auswirkungen auf die Art und Weise wie er mit den Menschen und seiner Umgebung verkehrt.

 

Ich selbst und alle Freunde des Urdu Anjumans beglückwünschen ihn zu seinem neuen wunderschönen Werk. Wir beten für seine Gesundheit und dafür, dass er uns mit seiner Poesie auch weiterhin verzaubert.

 

Und nun möchten wir das Buch auch sehen und bitten dafür den Autor persönlich auf die Bühne.

 

 

(Vorgetragen bei der Feier zum 100. Geburtstag von Ali Sardar Jafri

Am 02.06.2013 im „PallasT“, Pallasstr.35 Berlin-Schöneberg)

  

اردو انجمن برلن کے جلسوں کی چند جھلکیاں  Few functions of Urdu Anjuman Berlin

Yade-Ghalib August 11, 1996   یاد غالب

یاد غالب     Yad-e Ghalib 11.08.1996

عالمی ادب میں اردو کا مقام  Lecture by Prof. Mushirul Hasan, Vice Chancellor, Jamia Millia, New Delhi

14.12.1996

رسم اجراء خلش  Book Release, Arif Naqvi's Poetry Collection "Khalish" on 29.11.1998

موسیقی علاالدین خاں  Music Allauddin Khan and group 04.02.1999

کلچرل شام براۓ امن  Cultural Evening for Peace 18.06.1999

چغتائی کی مصوری میں غالب کی شاعری کی جھلک  Ghalib's poetry in Chughtai's paintings

 

 

 

 

 

 

 

 



Sie sind Besucher Nr.

Datenschutzerklärung
Gratis Homepage von Beepworld
 
Verantwortlich für den Inhalt dieser Seite ist ausschließlich der
Autor dieser Homepage, kontaktierbar über dieses Formular!